SON DAKİKA

Naya Pakistan Global

نورمقدم قتل کیس،مزیدگواہان بیانات ریکارڈ کرانےکیلئےعدالت طلب

نورمقدم قتل کیس،مزیدگواہان بیانات ریکارڈ کرانےکیلئےعدالت طلب
06 November 2021 - 10:46

نورمقدم قتل کیس میں مزید گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرانے کیلئے نوٹس جاری کردئیے ہیں۔

نور مقدم قتل کیس کی گزشتہ سماعت کا 2 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے جاری کردیا۔ عدالت نے 10 نومبر کو مزید گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرانے کیلئے نوٹس جاری کردئیے ہیں۔

عدالت حکم میں کہا گیا ہے کہ ملزم ظاہر جعفر عدالت میں پیشی کے دوران رویہ درست رکھے اوراگر رویہ درست نہ ہوا تو ویڈیو لنک پر ملزم کی حاضری لگائی جائے گی۔

حکم نامے میں بتایا گیا ہے کہ ملزم نے 3 نومبر کی سماعت کے دوران غل غپاڑہ کیا اورعدالتی کارروائی میں مداخلت کی کوشش کی۔ پولیس انسپکٹر نے ملزم ظاہر جعفر کے پولیس کی جوڈیشل گارڈ کے ساتھ رویے کی رپٹ دی ہے۔

چار نومبر کو مارگلہ پولیس نے جوڈیشل مجسٹریٹ انجم مقصود کے سامنے ظاہر جعفر کو پیش کیا جنھوں نے ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔ تین نومبر کو نورمقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کےخلاف نیا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ظاہر جعفر کے خلاف اسلام آباد کے تھانہ مارگلہ میں مقدمہ انسپکٹر غلام مصطفٰی کی مدعیت میں درج کیا گیا۔ ایف آئی آر میں درج ہے کہ ملزم نے 3 نومبر کو عدالت میں پولیس افسر پر حملہ کیا اور گالم گلوچ کی۔ ظاہر جعفر نےعدالتی حکم کے باوجود باہر جانے سےانکارکیا۔ مقدمے کے متن میں یہ بھی درج ہے کہ کمرہ عدالت سے باہرلانے پرملزم نےمدعی کو گریبان سے پکڑ کر کھینچنا شروع کیا اورملزم نے اپنےآپ کو ٹکر مار کر زخمی کرنے کی کوشش بھی کی۔ متن میں مزید لکھا ہے کہ ملزم نے عدالت کے تقدس کو پامال کیا۔

نورمقدم قتل کیس،ملزم ظاہرجعفرکوعدالت میں بدتمیزی مہنگی پڑگئی

واضح رہے کہ بدھ 3 نومبر کو ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں نورمقدم قتل کیس کی سماعت کے دوران ملزم ظاہرجعفر نےعدالت میں بدتمیزی کی۔دوران سماعت مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے کئی بار بولنے کی کوشش کی اور غلیظ زبان استعمال کی۔ملزم ظاہر جعفر بار بار حمزہ کا نام پکارتا رہا اور کہا کہ یہ میراکورٹ ہےاور میں نےایک چیز کہنی ہے۔

اس موقع پرجج نے پولیس کوملزم کوکمرہ عدالت سے باہرلےجانے کی ہدایت کی توملزم نے کہا کہ میں کمرہ عدالت میں رہ کر جج کو کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ملزم نے پولیس سے استدعا کی کہ اب نہیں بولوں گا۔ تاہم ملزم کی جانب سے مسلسل اونچی آواز نکالنے پر پولیس اہلکاروں نے اس کو اٹھا کر باہر نکال دیا۔

عدالت میں استغاثہ کے گواہ نقشہ نویس نے بیان قلمبند کیا۔گواہ نے عدالت کو بتایا کہ گواہی میں 161 کے بیان کی تاریخ  اور نوٹ میرے لکھے ہوئے ہیں۔ وکیل نے گواہ سے سوال کیا کہ نقشہ آپ کا اپنا تیار کردہ ہے اور آپ نے درست تیار کیا تھا۔ گواہ نے کہا کہ جائے وقوعہ کا نقشہ میں نے موقع پر انسپکٹر کی ہدایت پرتیار کیا تھا اور اسے درست کہا تھا۔

نقشہ نویس عامر شہزاد پر ذاکر جعفر کے وکیل کی جرح نہ ہو سکی۔ باقی ملزمان کے وکلاء نے نقشہ نویس پر جرح مکمل کرلی۔

نورمقدم قتل کیس،عدالت میں شہادت کیلئے مزیدگواہ طلب

تیس اکتوبرکو سیشن عدالت حکم نامے میں عدالت نے کہا ہے کہ یہ صنفی بنیاد پر تشدد کا کیس ہے اور ہائی کورٹ اس کیس کو 2 ماہ میں نمٹائے۔عدالت نے مزید بتایا کہ ملزمان کی جیل سے اسی لیے وڈیو لنک کے ذریعے حاضری لگائی گئی کیوں کہ ویڈیو لنک کے ذریعے جیل سے حاضری لگوانے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے۔کیس کے گواہ عابد لطیف، بشارت رحمان، اقصی رانی کے بیانات قلمبند ہوگئے ہیں اورجرح بھی مکمل کرلی گئی ہے۔

خاتون پولیس اہلکار اقصیٰ رانی کے مطابق دوران پوسٹ مارٹم مقتولہ نورمقدم کے جسم پرزخم کے 8 نشان پائے گئے۔ 4 نشانات چھاتی پر،3 دائیں کان کے نیچے اورایک نشان ماتھے پر تھا۔

 اکیس اکتوبر کواسلام آباد ہائیکورٹ نے ملزمان کی سی سی ٹی وی فوٹیج فراہم کرنے کی درخواست مسترد کردی۔عدالت نے گواہان کے بیانات کی نقول فراہم کرنے کی درخواست منظورکرلی۔ جسٹس عامر فاروق نے ملزمان کے شواہد فراہمی کی درخواستیں نمٹا دیں اورملزمان کی درخواستوں پر فیصلہ سنا دیا۔

درخواست گزار کے وکیل اسد جمال نے استدعا کی تھی کہ ابھی تک اس واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج، فرانزک رپورٹ اور دیگر شواہد فراہم نہیں کئے گئے۔

خانساماں جمیل احمد کی درخواست ضمانت منظور:۔

تیئس اکتوبرکواسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے ملزم جمیل احمد کی ضمانت پررہائی کا فیصلہ سنایا۔عدالت نے ملزم جمیل احمد کو50 ہزار روپے کے مچلکوں کےعوض ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے درخواستِ ضمانت پر دلائل سننے کے بعد 21 اکتوبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ عدالت نے ضمانت منظور کرنے کا مختصر فیصلہ سنایا جبکہ  تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری ہوگا۔

جمعرات 21 اکتوبر کو ملزم جمیل احمد کے وکیل راجہ رضوان عباسی اور مدعی کے وکیل بابر علی سمورش عدالت میں پیش ہوئے تھے۔ وکیل درخواست گزار نے ٹرائل کورٹ کی ضمانت منسوخی کا فیصلہ عدالت کو پڑھ کر سنایا تھا۔جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا آپ کے درخواست گزار نے 161 کا بیان ریکارڈ کرایا؟ وکیل راجہ رضوان عباسی نے بتایا کہ میرے موکل نے 161 کا بیان ریکارڈ کرایا ہے۔

شوکت مقدم کے وکیل نے بتایا کہ درخواست گزار جمیل کے خلاف چارج فریم ہوچکا ہے،ملزم جمیل کا مالی اورچوکیدار تک کے ساتھ رابطہ تھا،درخواست گزار کی موقع واردات کے گھر پر موجودگی ثابت ہے۔

اس پرعدالت نے ریمارکس دئیے کہ عدالتی بیان میں تو درخواست گزار نے خود کہا کہ مجھے مالی نے بتایا تھا۔شوکت مقدم کے وکیل کی جانب سے چارج فریم کی کاپی عدالت کو فراہم کی گئی۔

ذاکرجعفر کی فرد جرم کے خلاف درخواست واپس:۔

بائیس اکتوبر کو نورمقدم قتل کیس میں ملزم ظاہر جعفر کے والد ذاکرجعفر نے فردِ جرم کے خلاف درخواست واپس لے لی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے درخواست واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی۔ ملزم ذاکرجعفرکے وکیل راجا رضوان عباسی نے درخواست واپس لی۔

اٹھارہ اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملزم کے والد ذاکرجعفر کی فرد جرم کے خلاف دائر درخواست پرفریقین کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کیا تھا۔ قتل کیس کے ملزم ظاہر جعفر کے والد ذاکرجعفر نے فرد جرم کو چیلنج کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ذاکر جعفر نے ٹرائل کورٹ کا 14 اکتوبر کا حکم نامہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔

ذاکر جعفر کی جانب سے درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ٹرائل کورٹ کا آرڈر قانونی نظر سے نامناسب ہے، ٹرائل کورٹ نے تاثردیا کہ فرد جرم پراسیکیوشن کی خواہش کے مطابق ہوتی ہے، آرڈر سے تاثر ملا کہ پولیس جو بھی الزام لگا دے اس پر فردِ جرم ہو سکتی ہے۔درخواست میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ٹرائل کورٹ نے تاثر دیا کہ فرد جرم محض ایک مکینیکل مشق ہے،اس لئے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔

عصمت ذاکر کی ضمانت کا تحریری فیصلہ:۔

سپریم کورٹ نے نورمقدم قتل کیس میں ظاہر جعفر کی والدہ عصمت ذاکر کی ضمانت کا تحریری فیصلہ جاری کردیا ۔3 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس عمرعطا بندیال نے تحریر کیا۔ تحریری فیصلے میں درج ہے کہ عصمت ذاکر کی خاتون ہونے کے ناطے درخواست ضمانت منظور کی جاتی ہے، عصمت ذاکر 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرائیں۔

فیصلے میں درج ہے کہ ضمانت کے غلط استعمال، گواہان پر اثر انداز ہونے کی صورت میں ضمانت واپس لی جاسکتی ہے اور عصمت ذاکر کو فوجداری قانون کی دفعہ 497 کی ذیلی شق ایک کے تحت ضمانت دی جاتی ہے۔ مذکورہ قانون کے تحت 16 سال سے کم عمر ملزم،خاتون یا بیمار کو ضمانت دی جا سکتی ہے۔

فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ ذاکر جعفر کی درخواست ضمانت واپس لینے کی بنیاد پر خارج کی جاتی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کا 2 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کا فیصلہ برقرار رہے گا۔

نورمقدم قتل کیس:ملزم ظاہرجعفرکی والدہ عصمت کی درخواستِ ضمانت منظور

اس کےعلاوہ پیر 18 اکتوبر کو سپریم کورٹ میں نورمقدم قتل کیس میں ملزم ظاہر جعفر کی والدہ عصمت ذاکر کی درخواست ضمانت منظورکی گئی۔عدالت نے عصمت ذاکر کو10 لاکھ روپے کے مچلکے ٹرائل کورٹ میں جمع کرانے کا حکم دیا ۔

سپریم کورٹ نے ریمارکس دئیے کہ نورمقدم کے قتل میں ملزم کی والدہ کا کردار ثانوی ہے۔ ملزمان کے وکیل کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا مسترد کردی گئی۔ عدالت نے ریمارکس دئیے کہ سپریم کورٹ ہائیکورٹ کے 2 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کے فیصلے میں مداخلت نہیں کرے گی، ٹرائل کورٹ ملزمان کو شفاف ٹرائل کا پورا حق فراہم کرے۔مقدمے کے فیئر ٹرائل میں کسی صورت کمپرومائز نہیں کیا۔فوجداری مقدمہ 3 دن کا کیس ہوتا ہے۔ دو دو سال سال ٹرائل ہی مکمل نہیں ہونے دیا جاتا۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیس کے روزانہ کی بنیاد پر ٹرائل کی ہدایت کردیتے ہیں۔

اس سے قبل ملزمان کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ عصمت ذاکر اور ذاکر جعفر  مرکزی ملزمان نہیں،ملزمان کو قتل چھپانے اور پولیس کو اطلاع نہ دینے کا الزام ہے جبکہ قتل چھپانے کے حوالے سے ملزم کا بیان اور کالز ریکارڈ ہی شواہد ہیں۔خواجہ حارث نے بتایا کہ پونے 7 بجے سے 9 بجے تک والد ملزم سے رابطے میں رہا۔

نورمقدم کیس:ملزمان کی ڈیجیٹل شواہد فراہمی کی درخواست،مدعی کونوٹس جاری

بیس اکتوبر کو نورمقدم قتل کیس میں ایڈشنل سیشن جج عطا ربانی نے کیس ٹرائل کا باقدہ آغاز کردیا۔ ماتحت عدالت نے استغاثہ کے پہلے گواہ کا بیان قلمبند کرلیا گیا۔ گواہان میں مقدمے کا تفتیشی کمپیوٹرآپریٹراور نقشہ نویس شامل ہیں۔گواہ کے بیانات پر وکیل نے1 گھنٹہ تک جرح کی۔گواہ سےکیس سے متعلق مختلف سوالات پوچھے گئے۔عدالت نےمرکزی ملزم ظاہر جعفرکا وکیل بھی مقرر کردیا۔

نورمقدم قتل کیس:مرکزی ملزم ظاہرجعفر سمیت12ملزمان پرفردِجرم عائد

واضح رہے کہ جمعرات 14 اکتوبر کو ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے ملزمان پر فرد جرم عائد کی۔عدالت میں مرکزی ملزم سمیت 6 ملزمان کو اڈیالہ جیل سے اسلام آباد کچہری عدالت پیش کیا گیا۔ ضمانت پر موجود تھراپی ورک کے 6 ملزمان بھی عدالتی نوٹس پر ذاتی حیثیت میں پیش ہوئے۔ مرکزی ملزم ظاہرجعفر،ذاکر جعفر،عصمت آدم،افتخار،جمیل،جان محمد پرفرد جرم عائد کی گئی۔ تھراپی ورک کے طاہر ظہور سمیت6 ملزمان پر بھی فرد جرم عائد کی گئی۔ ملزمان نے صحت جرم سے انکار کردیا ہے۔ عدالت نے استغاثہ کے گواہ 20 اکتوبر کو طلب کرلیے ہیں۔

نورمقدم کیس:ملزمان نےدستاویز فراہمی کا مسترد ہونےوالافیصلہ چیلنج کردیا

دوران سماعت ذاکر جعفر کے وکیل رضوان نے بتایا کہ عدالت میں پیش شواہد کا ذاکر جعفر سے تعلق نہیں بنتا اوران شواہد کی بنا پر فرد جرم عائد نہیں کی جا سکتی۔شوکت مقدم کےوکیل نے بتایا کہ ان شواہد کا جائزہ ٹرائل میں لیا جا سکتا کیوں کہ اس وقت فرد جرم عائد کی جا رہی ہے اور سزا نہیں سنائی جا رہی ہے۔

وکیل کے دلائل کے دوران ظاہر جعفر مسلسل مداخلت کرتے رہے۔انھوں نے تھراپی ورکس کے اہلکاروں کی جانب سے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بندے میرے گھر داخل ہوئے۔ ظاہر جعفر نے کہا کہ میری زندگی خطرے میں ہے اور یہ میری جائیداد کا ذکر کررہے ہیں،میری جائیداد سے متعلق یہاں بات نہ کی جائے۔ ملزم ظاہر جعفر نے انکشاف کیا کہ نور قربان ہونا چاہتی تھی اور اس نے خود کو قربانی کیلئے پیش کیا۔

ملزم ظاہر جعفر نے کمرہ عدالت میں شوکت مقدم سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لی اور کہا کہ میرے زندگی خطرے میں ہے،مجھ  پر رحم کریں۔ظاہر جعفر کا ملازم ملزم افتخار کمرہ عدالت میں رو پڑا اور کہا کہ نور مقدم کا دو سال سے آنا جانا تھا اور مجھے علم نہیں تھا کہ یہ ہوجائے گا۔

İLGİNİZİ ÇEKEBİLİR